مٹی کے کھلونے، کہائن اور بچوں کےمہمان
اس دن بچوں نے موبائل کو ہاتھ نہیں لگایا،انہیں اسکرین کی بھوک کا احساس ہی نہیں ہوا،دراصل وہ مٹی کے کھلونوں میں کھوگئے تھے،ان کے سحر نے جکڑ لیا تھا انہیں۔ایک کمرے میں بہت دیر تک مہمان اور میزبان کے کھیل میں لگے رہے۔ چند منٹ کیلئے کوئی بچہ مہمان تو کچھ میزبان بن جاتے۔بچوں کو اس کھیل میں مزہ آرہا تھا۔ گھنٹوں اسی میں مگن رہے۔ گھر والے بھی بہت دن بعد اس طرح بچوں کو ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھ کر خوش ہورہے تھے۔دیوالی پر مٹی کے کھلونے آئے تھے۔ بس اسی بہانے بچوں کی یہ منڈلی مل بیٹھی۔ شور، ہنگامہ اور شوخی سے بھرپور اس محفل کی جان ہنسی کے دورے تھے جو وقفے سے وقفے سے بچوں کو پڑتے،بہت دور اور دیر تک سنائی دیتے،مشکل سے تھمتے۔ بڑوں کی طرح ان کی بھی ٹرے سجائی گئی۔مہمان بھی آنے لگے ،وہ بھی بائک سے۔ بائک بھی سستی، کوئی خرچ نہیں۔ پیٹرول اور ڈیزل یا بیٹری چارجنگ کا جھمیلا نہیں۔ مہمان بچے ہارن اور بائک چلنے کی آواز نکالتے:’’بھوم بھوم...پیپ پیپ...‘‘ دونوں ہاتھ اوپرکرتے، ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے ہاتھوں میں بائک ہے اور وہ ایکسلیریٹر تھامے ہوا سے باتیں کر رہے ہیں۔اتنی آسانی سے بائک کی سواری بن جاتی۔ایک قدم بھی نہیں چلتے،صرف آوازیں نکالتے اور ہاتھ اوپر نیچے کرتے، چند منٹ میں مہمان بن کر آجاتے۔اس میں مہمان میزبان کے کردار بدلتے رہتے۔
بچوں کی ٹرے نئے دور کی تھی۔ اس میں سلیقے سے مٹی کے برتن رکھے ہوئے تھے۔میٹھے اور نمکین بسکٹ تھے، نمکین تھی۔ کھجوریں تھیں، دوقسم کے پاپڑ تھے۔ مٹی کے ایک کپ میں پانی تھا، ایک کپ میں چائے تھی۔ بہت دیر تک بچوں نے کچھ کھایا نہیں۔ اچانک پتہ نہیں کیا ہوا، ایک بچے کو شرارت سوجھی، اس نے آلو کے پاپڑ پر ہاتھ صاف کیا۔ پھر کیا تھا ہنگامہ ہوگیا، بچے ٹوٹ پڑے، ٹرے کوویران کردیا۔ بڑوں نے مداخلت کی اور سمجھا بجھا کر بچوں کو دوبارہ کھیلنے پر آمادہ کیا،انہیں وہ سب دیا جس کی انہیں ضرورت تھی، بس پاپڑوں کی جگہ چاکلیٹ اور کرکرے نے لے لی۔ اس طرح اس محفل میں پھر بہار لوٹی اور بچے پہلے کی طرح چہکنے بہکنے لگے۔کھیلتے کھیلتے شام ہوگئی۔ سورج ڈوبنے سے ذرا پہلے گھر والوں نے بچوں کو گھر سے باہر جانے کیلئے کہا۔پہلی فرصت میں بچوں نے ’مال و متاع‘ کا بٹوارہ کیا اور کھلونے سمیٹ کر کسی دوسرے محاذ پر نکل گئے۔
یہ سب کہائن(کمہارن ) دادی کی وجہ سے ہوا۔ ہرسال کی طرح اس سال بھی وہ دیوالی کے کھلونے لائی تھیں۔ چالیس پچاس سال سے یہی کر رہی ہیں،کورونا اور لاک ڈاؤن میں بھی وہ گھر گھر دیوالی کے کھلونے پہنچانا نہیں بھولی تھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اب انہیں کھلونوں کے روپے ملتے ہیں، پہلے آٹا چاول ملتا تھا، ہاں اس دور میں بھی کچھ لوگ پرانے تعلقات نبھاتے ہیں۔وہ پیسے کے ساتھ چاول، آٹا اور دال وغیرہ بھی دے دیتے ہیں۔ ایک طریقے سےوہ ’سیدھا‘ کی روایت کو بھی زندہ کئے ہوئے ہیں۔ ’سیدھا‘ کا بھی الگ قصہ ہے، کل تک اس کا چلن تھا۔ پوروانچل کے گاؤں دیہاتوں کے ہر گھر میں کپڑا دھونے سے لے کر بال بنانےتک کیلئے مخصوص لوگ ہوتے تھے۔ انہیں سال میں کئی مرتبہ غلہ اور کپڑے وغیرہ کی شکل میں سیدھا دیاجاتا تھا۔سچ پوچھئے تو اس میں معاوضہ اور بخشش دونوں شامل ہوتے تھے۔کہائن بھی ان میں سے ایک تھیں۔ گھر آنے پر انہیں میٹھے کے ساتھ پانی پینے کیلئے دیاجاتاتھا۔
اس دن بھی کہائن دادی تھکی ہاری سر پہ مٹی کے کھلونوں کی ٹوکری لئے پہنچیں۔اکتوبر کے مہینے میں سب سےپہلے ساڑی کے پلو سے پسینے پونچھے،گھر کے ایک کونے میں زمین پر بیٹھ گئیں، سستانے اور دم لینے کے بعدحسب روایت انہیں مٹھائی دی گئی۔ پھر پانی دیا گیا۔ پیاس بجھنے کے بعد انہوں نے اپنی بانس کی ٹوکری کا لال کپڑا ہٹایا۔ بچوں کی تعداد پوچھی، پھر گھر کی ذمہ دار کو بلایا۔ تعداد کے اعتبار سے کھلونے نکالے۔ پانچ چھ سیٹ وہیں زمین پر رکھ دیئے۔ ایک نوجوان وہاں سے گزرا۔ اس نے کہا:ارے کہائن دادی آج کل کے لڑکا مٹی کا کھلونا کھلہن.. ہمرے جمانے میں ایہے سب سے اچھا کھلونا رہا۔ (ارے کہائن دادی آج کل بچے مٹی کا کھلونا کھیلیں گے۔ ہمارے زمانے میں یہی سب سے اچھا کھلونا تھا۔)
واقعی اس دور میں مٹی کا کھلونا ٹوٹنے پر بچے رو رو کر بے حال ہوجاتے تھے۔کچھ بچے تھوڑا بہت آنسو بہا کر چپ ہوجاتے تھے۔ جو زیادہ ناراض ہوجاتے، وہ جھوٹے سچے ہر طرح کے آنسو خرچ کردیتے تھے۔ بعض دفعہ ایسے بچوں کو منانے کیلئے بڑے بوڑھے اندھیری رات میں کمہار کے گھر سائیکل سے پہنچتے اور وہاں سے کھلونے لے کر لوٹتے۔بتاتے ہیں کہ اس طرح رات میں پہنچنے پر کمہار کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھابلکہ اس کے گھر والےپریشان ہوجاتے تھے۔ ان کے تعلقات ہی ایسے ہوتے تھے، بالکل گھریلو نوعیت کے۔ گھر آنے والی کہائن کا نام بچوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا تھا، وہ بھوجی اور دادی ہی کہتے تھے۔ وہ صرف دیوالی کے کھلونے نہیں بلکہ پوری شادی کا برتن دیتی تھیں، اس دور کی شادی میں کثرت سے مٹی کےبرتن استعمال ہوتے تھے۔بدلے میں انہیں غلہ وغیرہ ملتا ہی تھا۔وقت پڑنے پر اُن کی مدد کی جاتی تھی۔ گھر کا ہر فرد ان کا احترام کرتا تھا، یہ جب ادھیڑ رہتی تھیں، انہیں ’بھوجی‘ کہا جاتا تھا، پھر عمر زیادہ ہونے پر دادی ہوجاتی تھیں۔ یہ صرف کہائن کے ساتھ نہیں ہوتا تھا بلکہ بھینس کی خدمت کرنے والی دادی اور بھوجی کا بھی اسی طرح پاس و لحاظ کیا جاتاتھا، ان کی موت سے گھر کا ہر فرد غم سے نڈھال ہو جاتا تھا۔لگتا تھا کہ گھر کا کوئی فرد کم ہوگیا ہے، بیمار ہونے پر علاج معالجہ کا نظم کیاجاتا تھا۔ شادی بیاہ کے موقع پر بھی بند مٹھی سے ان کی مدد کی جاتی تھی۔
Gunjan Kamal
31-Jan-2023 05:25 AM
👌👏
Reply
Renu
27-Jan-2023 03:47 PM
👍👍🌺
Reply